SIZE
1 / 15

پیاری زارا !

امید ہے خیریت سے ہوں گی .

تمہارا شکوہ بجا کہ تمہارے خط دو سے تین ' تین سے چار اور پھر چار سے پانچ ہو گئے اور میرے نوک قلم نے اتنی جنبش نہ کی کہ میں تمہیں سادہ کاغذ پر انگوٹھا چھاپ کر جوابی رسید کے طور پر بھیج دیتی . لیکن یقین جانو اس کوتاہی کے پیچھے .... تمہیں نظر انداز کرنا یا وقت کی کمی ہرگز پنہاں نہیں . تمہارے خطوط ابھی بھی میرے لئے اس پھوار کی طرح ہیں جس کے لمس کو چمن میں کھلنے والے گل ہی محسوس کر سکتے ہیں .

اور وقت کی کمی کا ملال بھی کیا کروں ' لگتا ہے جیسے میرا دور مجھ سے کھو گیا ہے اور اب میں دوسری دنیا میں بوکھلائی سی پھرتی ہوں یا جیسے اکثر انسان جیٹھ کی دوپہر میں سو کر سر شام اٹھے اور باہر غروب ہوتے دن کو دیکھے تو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا لٹ گئی . وہ سوتا رہ گیا اور وقت کہیں دور ....سر پٹ بھاگ گیا .

تمہارے پہلے خط کا جواب دینے کے لئے جو گوشہ تنہائی مجھے درکار تھا وہ مجھے پچھلے ماہ میسر تھا . ستمبر کے آخری عشرے میں . وہی عجیب بے کل سے دن .... جیسے کوئی مرتبان میں بند کر کے سانسیں گھونٹ رہا ہو ... ایک جاتے اور دوسرے آتے موسم کے درمیان کا وقت ..... وحشت بھرا .... خود کشی پر اکسانے والا . میں ابھی خط کی ابتدائی سطریں ہی لکھ سکی تھی کہ وہ گوشہ تنہائی اچانک افتاد اور زلزلے کے باعث مجھ سے ادھر ادھر ہو گیا . مانو جیسے مٹی کے فرش پر سوئی گر جاۓ اور پھر مل کے نہ دے . یا جیسے بوڑھی نانیاں ' دادیاں اپنے پہلے نواسے پوتے کے جھنڈ کے بال پرانے کپڑے کے چیتھڑے میں لپیٹ کر رکھتی ہیں اور پھر رکھ کر خود بھی بھول جاتی ہیں .

میری طرح وہ خط بھی وکرم بیتال کی کہانیوں کی طرح آدھا ادھورا گیا . ( معافی چاہتی ہوں وہ خط چاہ کر بھی پورا نہ کر سکی اور تمہیں نیا خط لکھنے بیٹھ گئی .) ایک آندھی جو چلی تو دیکھتے ہی دیکھتے کال بیساکھی بن گئی .

تمہیں یاد ہو گا . ایک بار جب تم ہمارے گھر رہنے آئی تھی اور تم نے پچھلے کمرے کی صفائی اپنے ذمے لے لی تھی . تین گھنٹے بعد جب تم باہر نکلی تھیں تو کمہاروں کے چاک کی طرح مٹی مٹی ہو رہی تھی .